پہلے راتیں اتنی لمبی کب ہوتی تھیں
جو بھی حساب اور کھیل ہوا کرتا تھا
سب موسم کا تھا
روز و شب کی ہر ساعت کا اک جیسا پیمانہ تھا
اپنے ملنے والے سارے
جھوٹے سچے
یاروں سے اک مستحکم یارانہ تھا
لیکن
اپنے درد کی سمتوں کی پہچان نہ رکھنے والے دل
یہ سوچنا تھا
ہر خواب کی قیمت ہوتی ہے
اور اب ان دو آنکھوں میں اتنے
طرح طرح کے
دنیا بھر کے خواب بھرے ہیں
ان میں سے اک اک کو گن کر
سب کے مناسب دام چکانا
اس کے لیے تو دو صدیاں بھی کم ہوں گی
کنگلے
اتنی نقدی کہاں سے آئے گی

نظم
نقدی کہاں سے آئے گی
شاہین غازی پوری