میر تو نہیں ہوں میں
جانے پھر بھی ایسا کیوں
روز روز ہوتا ہے
رات کے سمندر میں
چاند جو کہ مچھلی ہے
موتیاں اگلتا ہے
اور ایک موتی سے
جل پری نکلتی ہے
اور مجھ سے کہتی ہے
کیوں اداس رہتے ہوں
''نیند کیوں نہیں آتی''
کون یاد آتا ہے
کس کا غم ستاتا ہے
الفتوں کے مارے ہو
چاہتوں کے پیاسے ہو
رات اک سمندر ہے
جس کی موج ظلمت میں
عاشقوں کے نالوں کا
ان کہے سوالوں کا
زہر خوب ہوتا ہے
سیر ہو کے پی لینا
پھر گلے لگا لینا
موت کی دلہن کو تم
دفعتاً یہ ہوتا ہے
آرزو کی چوکھٹ پر
دل کے ٹوٹ جانے سے
درد چیخ اٹھتا ہے
عشق! تیری توبہ ہے
نظم
نفسیاتی مرض
خالد مبشر