میں تھی آئینہ فروش
کوہ امید کے دامن میں
اکیلی تھی زیاں کوشش
ثریا کی تھی ہم دوش
مجھے ہر روز ہمہ وقت تھی بس اپنی خبر
میں تھی خود اپنے میں مدہوش
میں وہ تنہا تھی
جسے پیر ملانے کا سلیقہ بھی نہ تھا
میں وہ خودبیں تھی
جسے اپنے ہر اک رخ سے محبت تھی بہت
میں وہ خود سر تھی
جسے ہاں کے اجالوں سے بہت نفرت تھی
میں نے پھر قتل کیا خود کو
پیا اپنا لہو ہنستی رہی
لوگ کہتے ہیں ہنسی ایسی سنی تک بھی نہیں
نظم
نفی
کشور ناہید