ان کی بارگاہ میں
جنگل کے شیر
جاروب کشی کرتے ہیں
موت نے ان سے وعدہ کیا تھا
آگ نہیں جلائے گی
ساتویں نسل تک
لیکن میں ہوں
آٹھویں نسل میں
میں نے ان کی سفید خوشبو کو محسوس کیا ہے
ان کی دستار کا
ایک سرا مشرق میں گم ہے
ایک سرا ایک اور مشرق میں گم ہے
وہ سورج کے آگے آگے قبا پہن کر چلتے ہیں
ہم اپنی حدوں میں سمٹے ہوئے
انہیں دیکھتے ہیں
اور کہتے ہیں نئے شہروں کی بنیاد وہی رکھتے ہیں
جو جنگل کے شیروں کو
جاروب کشی پر مامور کر دیں
ہم تو
اپنے گھوڑوں کی گردن پر
باگ بھی نہیں چھوڑ سکتے
نظم
نئے شہروں کی بنیاد
رئیس فروغ