اندیشوں کے دروازوں پر
کوئی نشان لگاتا ہے
اور راتوں رات تمام گھروں پر
وہی سیاہی پھر جاتی ہے
دکھ کا شب خوں روز ادھورا رہ جاتا ہے
اور شناخت کا لمحہ بیتتا جاتا ہے
میں اور میرا شہر محبت
تاریکی کی چادر اوڑھے
روشنی کی آہٹ پر کان لگائے کب سے بیٹھے ہیں
گھوڑوں کی ٹاپوں کو سنتے رہتے ہیں!
حد سماعت سے آگے جانے والی آوازوں کے ریشم سے
اپنی روئے سیاہ پہ تارے کاڑھتے رہتے ہیں
انگشتا نے اک اک کر کے چھلنی ہونے کو آئے
اب باری انگشت شہادت کی آنے والی ہے
صبح سے پہلے وہ کٹنے سے بچ جائے تو!
نظم
نئے سال کی پہلی نظم
پروین شاکر