EN हिंदी
ندامت | شیح شیری
nadamat

نظم

ندامت

محمد افسر ساجد

;

ہم جو اک جاں کے سفر پر ہیں رواں برسوں سے
ہم کو معلوم نہیں کب اور کہاں ختم ہو یہ

ہم تو بس تشنہ دہن لب بہ دعا کشتۂ غم
اپنے ہونے ہی میں گم پڑھ نہ سکے ہیں اب تک

وقت کے باب ندامت میں نہاں تحریریں
ان کو پڑھ لیتے تو شاید نہ یوں حیراں ہوتے

اک تماشے کی طرح وقت پہ عریاں ہوتے
اپنی خواہش کو سر بزم نہ رسوا کرتے

اپنے لمحوں کو کسی طور نہ زنداں کرتے