EN हिंदी
ندامت ہی ندامت | شیح شیری
nadamat hi nadamat

نظم

ندامت ہی ندامت

تبسم کاشمیری

;

رات کے معدے میں کاری زہر ہے جلتا ہے جس سے تن بدن میرا
میں کب سے چیختا ہوں درد سے چلاتا پھرتا ہوں

تشدد خوف دہشت بربریت
اور مغلظ رات کی رانوں میں شہوت

ایک کالا پھول بنتی ہے
شہوت جاگتی ہے گھورتی ہے سرخ آنکھوں سے

وہ چہرے نوچتی کھاتی ہے اپنے تند جبڑوں سے
یہ کیسا زہر ہے جو پھیلتا جاتا ہے معدے میں

یہ کاری زہر ہے جو رات کے معدے سے ٹپکا ہے
تشدد خوف دہشت بربریت

رات کے کالے ستم گر سیاہ ماتھے پر
ندامت ہی ندامت ہے