EN हिंदी
نامۂ عشق ہے خدا کے نام | شیح شیری
nama-e-ishq hai KHuda ke nam

نظم

نامۂ عشق ہے خدا کے نام

خورشید اکبر

;

میں بھی انجان تھا
تم بھی انجان تھے

لوگ حیران تھے
عشق آسان تھا

عشق آسان تھا
اس کی افتاد مشکل

نہ تھی اس قدر
ابر کی چھاؤں میں

یوں چلے جا رہے
تھے نئے ہم سفر

اس کے آگے مگر
تھے عجب سلسلے

پھر کڑے کوس تھے
پھر کٹھن تھی ڈگر

دور تک بے کراں
ریگ صحرا تھی پھیلی ہوئی

ایسی آندھی چلی
میں بھی تھا بے اماں

تم بھی تھے در بہ در
لوگ تھے بے خبر

عشق حیران تھا
میں کہیں کھو گیا

تم کہیں جا بسے
پھول کھلتے رہے

لوگ ملتے رہے
پر نہ مل پائے ہم

اے مرے ہم سفر پھر نہ کہنا کبھی
عشق آسان تھا عشق آسان ہے

وقت اپنے کیے پر پشیمان تھا
کب پشیمان ہے

ہاں وہ اپنا خدا جو نگہبان تھا
وہ نگہبان ہے