یہ سمندر کئی بار اچھلا ہے
ہر بار
موجوں نے دور
ان بلند اور بالا
چٹانوں کے اس پار جانے کی خواہش میں
جستیں لگائی ہیں
اس طرح اچھلی ہیں
جیسے ادھر کی فضا
جو ابھی تک رسائی سے باہر تھی
اب دام نظارہ میں آ چکی ہے
مگر ان چٹانوں سے اس پار کی وسعتیں
اب بھی نادیدہ ہیں
آج بھی
وہ جو دیوار کی دوسری سمت میں ہے
مرے لفظ کی زد سے
باہر سے شاید
نظم
نارسائی
علیم اللہ حالی