اور جنموں سے ترے اندر چھپا تھا وہ بھی میں
اور ترے اظہار سے باہر اڑا تھا وہ بھی میں
اور تجھ سے تجھ تلک جو فاصلہ تھا وہ بھی میں
اور سارے فاصلوں میں راستہ تھا وہ بھی میں
اور تیری رات کی زد پر جلا تھا وہ بھی میں
اور ایوان فلک میں جو بجھا تھا وہ بھی میں
اور کھنڈر کے دل میں جو نغمہ سرا تھا وہ بھی میں
اور صفر کے گنبدوں میں گونجتا تھا وہ بھی میں
اور نہ ہونے کی فضا میں ہو گیا تھا وہ بھی میں
اور تیرے رنگ سے بچھڑا ہوا تھا وہ بھی میں
اور بدن کے پار تجھ کو ڈھونڈتا تھا وہ بھی میں
اور سانسوں کے کناروں پر بسا تھا وہ بھی میں
اور عدم کے بادبانوں میں ہوا تھا وہ بھی میں
اور بکھری کہکشاں کا سلسلہ تھا وہ بھی میں
اور سیاروں کے محور سے اگا تھا وہ بھی میں
اور ازل کی روح سے پہلے بنا تھا وہ بھی میں
اور ابد کے اس طرف اک نقش پا تھا وہ بھی میں
اور خود اپنے سے پہلے آ پڑا تھا وہ بھی میں
اور خود اپنے سے پہلے جا چکا تھا وہ بھی میں
نظم
نا مکمل تعارف
ریاض لطیف