میں ہوں سر چشمۂ اول سے بہت دور
پئے نور بھٹکنے والا
روشنی عکس بہ عکس آتی ہے ان آنکھوں تک
آئنے اپنی خیانت سے نہیں خود واقف
ان کو معلوم نہیں
زاویے ان کے بدل دیتے ہیں کرنوں کا مزاج
آج اس نور محرف سے ہے آنکھوں میں تھکن
دل میں خناس کی سرگوشیٔ پیہم کی چبھن
کاش سر چشمۂ اول سے اتر آئے کوئی راست کرن
جو مری روح کی ظلمت میں اجالا کر دے
میں کہ ہوں کور مجھے دیکھنے والا کر دے
نظم
نا بینائی میں ایک خواب
خورشید رضوی