ندا آئی
انبوہ شیدائیاں
نازنینان شہر تخیل
غزالان فکر و نظر
غم گساران دار و صلیب و رسن
دیر سے عقیدت کی نایاب سوغات لے کر
در گنبد فن پہ سجدہ کناں ہیں
پئے دیدن منظر شاد کاماں
بڑی تمکنت سے اٹھا
اٹھ کے میں نے
جو دیکھا تو حد نظر تک فروکش
لہو کی لکیروں کا اک کارواں تھا
کبھی جو رگ و پے میں میری رواں تھا

نظم
نہ ستائش کی تمنا
حمید الماس