تحیر کی فضاؤں میں
کوئی ایسا پرندہ ہے
جو پکڑائی نہیں دیتا
ہے کوئی خواب ایسا بھی
ازل سے ہے جو ان دیکھا
کوئی ایسی صدا بھی ہے
سماعت سے ورا ہے جو
بصارت کی حدوں سے دور اک منظر ہے جو اب تک
تصور میں نہیں آیا
کہیں کچھ ہے
جو اک پل دل میں آ ٹھہرے
تو جسم و جان کے ہونے کا اک بین حوالہ ہو
جو گیتوں میں اتر آئے
تو اس دھرتی سے نیلے آسماں تک وجد طاری ہو
جو لفظوں میں رچے تو بات پھولوں کی طرح مہکے
اگر لمحوں میں دھڑکے تو زمانوں میں صدا پھیلے
اگر منظر کے اندر ہو
تو بینائی کو اپنا حق ادا کرنے کی جلدی ہو
وہ شاید ہے
اک ایسی داستاں جو روح کے اندر ہے پوشیدہ
اک ایسی سانس جو سینے کی تہ میں چھپ کے سوئی ہے
اک ایسا چاند جو افلاک سے باہر چمکتا ہے
مقدر ہی بدل جائے
اسے گر لکھ دیا جائے
ہمارے درمیاں ہونا
نظم
نہ جانے کب لکھا جائے
حمیدہ شاہین