صبح دم جو دیکھا تھا
کیا ہرا بھرا گھر تھا
ڈانٹتی ہوئی بیوی
بھاگتے ہوئے بچے
رسیوں کی بانہوں میں
جھولتے ہوئے کپڑے
بولتے ہوئے برتن
جاگتے ہوئے چولھے
اک طرف کو گڑیا کا
ادھ بنا گھروندا تھا
دور ایک کونے میں
سائیکل کا پہیا تھا
مرغیوں کے ڈربے تھے
کابکیں تھیں، پنجرا تھا
تیس گز کے آنگن میں
سب ہی کچھ تو رکھا تھا
ایک پل میں یہ منظر
کیوں بدل سا جاتا ہے
اک دھواں سا اٹھتا ہے
ہاں مگر دھندلکے میں
کچھ دکھائی دیتا ہے
جانماز کا کونا
جھاڑیوں میں الجھا ہے
صفحۂ کلام پاک
خاک پر لرزتا ہے
ساتھ اور خبروں کے
یہ خبر بھی چھپتی ہے
لوگ اس کو پڑھتے ہیں
باتیں ہوتی رہتی ہیں
کام چلتے رہتے ہیں
ایمبولینس ایدھی کی
بین کرتی آتی ہے
سب جلی کٹی لاشیں
ساتھ لے کے جاتی ہے
صبح تک سبھی لاشیں
دفن کر دی جاتی ہیں
عورتوں کی بچوں کی
بوڑھوں اور جوانوں کی
مسجدوں سے ہوتی ہیں
بارشیں اذانوں کی
لا الہ الا اللہ
لاالہ الا اللہ
نظم
مسلم مسلم فسادات
زہرا نگاہ