وہ اچانک چل دیا گویا سفر تھا مختصر
زندگی بھر جو سفر کرتا رہا چلتا رہا
چھاؤں میں افلاک کی پلتا رہا ڈھلتا رہا
پاس جو پونجی اجالوں کی تھی سب کچھ بانٹ کر
راہ کے بے مایہ ذروں کو بنا کر آفتاب
خود سے لا پروا زمانے کی نظر سے بے نیاز
زہد سے فطری لگاؤ دل میں توقیر حجاز
جانے کیوں اس کو پسند آئی تھی زندی کی نقاب
مرحلے تاریک تھے اور منزلیں تاریک تر
اس کی ننھی روشنی پیہم رہی ظلمت شکن
صرصر بے اعتدالی سے گریزاں فکر و فن
ہوش میں تھا تا دم آخر ضمیر معتبر
وہ مسافر تھا عدم کی راہ میں گم ہو گیا
غم تو اس کا ہے کہ اک اچھا سا انساں کھو گیا
نظم
مسافر
عزیز تمنائی