EN हिंदी
مسافر چلتے رہتے ہیں | شیح شیری
musafir chalte rahte hain

نظم

مسافر چلتے رہتے ہیں

وزیر آغا

;

کبوتر مقبروں پر رات دن
دن رات رہتے ہیں

مسافر چلتے رہتے ہیں
کبوتر دودھ ایسے پر

سیہ دیوار کی جالی سے آتی
دھوپ کی کنگھی سے

جب ہموار کرتے ہیں
تو بوڑھے مقبروں پر

کائی کے جنگل مہکتے ہیں
مسافر چلتے رہتے ہیں

یہ بنجارے
جنہیں بس چند لمحے ہی ٹھہرنا ہے

انہیں روکو نہیں
یہ موسمی آبی پرندے ہیں

جنہیں میلے پروں کے ساتھ اڑنا ہے
انہیں رکنا نہیں آتا

انہیں رکنا نہیں آتا