EN हिंदी
مرقع عبرت | شیح شیری
muraqqa-e-ibrat

نظم

مرقع عبرت

لالہ انوپ چند آفتاب پانی پتی

;

جلوۂ حسن ازل آئے تصور میں اگر
گوشۂ دل میں مچلتے ہوئے ارماں ہوں گے

اک حسیں گور غریباں پہ ہوا یوں گویا
یہ بھی کمبخت کبھی حضرت انساں ہوں گے

پاؤں رکھتے بھی نزاکت سے اگر ہوں گے کہیں
بے بدل حسن جہاں سوز پہ نازاں ہوں گے

پھول بستر پہ بچھانے کو اگر حاصل تھے
سیر کے واسطے باغ اور گلستاں ہوں گے

عطر ملنے کے لئے کپڑے بدلنے کے لئے
محل و ایواں میں بہت دست حسیناں ہوں گے

نت نئی روز میسر تھی انہیں بزم سرود
دل بہلنے کے لئے سینکڑوں ساماں ہوں گے

ایک لمحہ بھی گزرتا تھا جو تنہائی میں
مضطرب اور پریشان یہ ذیشاں ہوں گے

گور و مرقد پہ یوں ہی سیر کو آتے ہوں گے
اور سینوں میں لئے حسرت و ارماں ہوں گے

کیا خبر تھی کہ اجڑ جائے گا گلزار حیات
ایک جھونکے سے ہوا کے نہ یہ ساماں ہوں گے

کیا یوں ہی موت مٹائے گی جہاں سے ہم کو
کیا یوں ہی اپنے لئے دشت و بیاباں ہوں گے

زندگی میں نہ کریں گے جو بشر کار ثواب
وقت رخصت وہ پریشان و پشیماں ہوں گے

آفتابؔ ان کی سمجھتا ہوں حیات ابدی
جو بشر دھرم پہ سو جان سے قرباں ہوں گے