وہ چکا چوند وہ شہر کے جلوے
وہ تماشے وہ کرتب اجالوں کے
ہو رہے محو ہم بسکہ سائے تھے
ہر طرف شعبدے بے کراں سے تھے
مبتلا جن میں ہم جسم و جاں سے تھے
نہ رہا یاد آئے کہاں سے تھے
نظر اک دین تھی خود نظاروں کی
ذات اپنی عبارت انہیں سے تھی
رہن دریا تھی گرداب کی ہستی
انس کے رابطوں کے امیں تھے ہم
اک فضا تھی جہاں ہر کہیں تھے ہم
رابطوں کے سوا کچھ نہیں تھے ہم
کھیل تھا اک چراغ تمنا کا
جس کی لو سے تھی سب روشنی برپا
وقت کا تیل نظروں سے اوجھل تھا
یہ گذشتہ بہاروں کے گل بوٹے
چمن آرزو کے جگر گوشے
ہمیں گھیرے کھڑے راستے روکے
لئے آنکھوں میں رنج و محن اپنے
کئے جائیں گے کب تک جتن اپنے
ہمیں جانے بھی دیں اب وطن اپنے
نظم
مراجعت
محب عارفی