1
ساری دیوار سیہ ہو گئی تا حلقۂ دام
راستے بجھ گئے رخصت ہوئے رہ گیر تمام
اپنی تنہائی سے گویا ہوئی پھر رات مری
ہو نہ ہو آج پھر آئی ہے ملاقات مری
اک ہتھیلی پہ حنا ایک ہتھیلی پہ لہو
اک نظر زہر لیے ایک نظر میں دارو
دیر سے منزل دل میں کوئی آیا نہ گیا
فرقت درد میں بے آب ہوا تختۂ داغ
کس سے کہیے کہ بھرے رنگ سے زخموں کے ایاغ
اور پھر خود ہی چلی آئی ملاقات مری
آشنا موت جو دشمن بھی ہے غم خوار بھی ہے
وہ جو ہم لوگوں کی قاتل بھی ہے دل دار بھی ہے
نظم
ملاقات مری
فیض احمد فیض