EN हिंदी
مکافات | شیح شیری
mukafat

نظم

مکافات

منیب الرحمن

;

آؤ کہ مے کدوں میں گزاریں تمام رات
تنہائیوں میں صحبت جام و سبو رہے

خاموشیوں میں کیفیت گفتگو رہے
یادوں کے پیچ و خم کو سنواریں تمام رات

زہر حیات دل میں اتاریں تمام رات
یہ در جو بند ہو تو کہیں اور اٹھ چلیں

ظلمت بڑھے تو آتش غم تیز تر کریں
پروانہ وار جل کے بنیں خاک رہ نشیں

انبوہ گرد باد میں رقص شرر کریں
افتادگی میں آرزوئے بال و پر کریں

لے جائیں کس کے پاس یہ داغ خود آگہی
اے سوز ہجر کوئی ترا راز داں نہیں

یہ شہر نا شناس یہ ویرانی ہجوم
اس قافلے میں اہل نظر کا نشاں نہیں

سب اجنبی ہیں کوئی یہاں ہمزباں نہیں
بیٹھیں شفق کے سائے میں خون جگر پئیں

آؤ کہ رسم اہل خرابات ہے یہی
ہر عشق سخت جاں کی مکافات ہے یہی