میری ماں کو تالے لگانے کی عادت نہیں تھی
اس کے ٹرنک بھی کھلے رہتے تھے الماریاں بھی
اسے محبت بھی وافر ملی تھی توقیر بھی
اسے سہیلیاں بنانے کی بھی اجازت تھی اور ہنسنے کی بھی
وہ غم بانٹ لینے میں بھی آزاد تھی اور خوشیاں تقسیم کرنے میں بھی
اسے بہت سراہا جاتا تھا اور چاہا بھی
اسے وقار بھی دیا گیا تھا اختیار بھی
اسے تالے لگانے کی نہ عادت تھی نہ ضرورت
اس کا ہاتھ بھی کھلا تھا اور دل بھی
اس کی بیٹی ہر روز تالے خریدتی ہے
جگہ جگہ لگاتی ہے
اس کے پاس سینتنے اور چھپانے کو بہت کچھ ہے
شادی کے اگلے ہی روز
اس نے اپنے پندار کی کرچیاں سمیٹ کر دراز میں رکھیں
عزت نفس کے ٹکڑے الماری میں چھپائے
اپنے وقار کی اڑتی دھجیاں سمیٹ کر ٹرنک میں ڈالیں
ہر جگہ تالا لگانا پڑا
اسے نہ سہیلیاں بنانے کی اجازت ہے نہ ہنسنے کی
اس کے لبوں پر قفل ضروری ہے
وہ نہ کسی کا غم بانٹ سکتی ہے نہ خوشیاں
اسے نہ وقار دیا گیا ہے نہ اختیار
اس کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہیں پاؤں بھی
کوئی کسی ٹرنک میں نہ دیکھ لے
کسی دراز میں نہ جھانک لے
کوئی آنکھوں میں نہ دیکھ لے
کوئی دل میں نہ جھانک لے
تالے لگانا اس کی ضرورت بھی ہے مجبوری بھی
نظم
مجھے ورثہ نہیں ملا
حمیدہ شاہین