مجھے تو انتظار عشق میں ہی لطف آتا ہے
کسی کی چاہتوں کا رنگ ہر دھڑکن پہ طاری ہو
عجب سا کرب بے چینی مسلسل بے قراری ہو
نگاہیں منتظر فرقت کسک اور آہ و زاری ہو
مجھے تو انتظار عشق میں ہی لطف آتا ہے
کبھی پہلو میں ملتا ہے کبھی وہ دور جاتا ہے
کسی کے جسم و جاں کو عشق ہر لمحہ جلاتا ہے
تصور کیسے کیسے دل نشیں منظر دکھاتا ہے
مجھے تو انتظار عشق میں ہی لطف آتا ہے
ابھی تو فرقت جاناں کے قصے خوب لکھنے ہیں
دبی چاہت کے نغمے اور ترانے خوب لکھنے ہیں
رفاقت میں جدائی کے فسانے خوب لکھنے ہیں
مجھے تو انتظار عشق میں ہی لطف آتا ہے
علیناؔ انتظار عشق غزلوں کو سجا دے گا
وصال یار تو بس چند لمحوں کا مزا دے گا
ملن ہو پھر جدائی ایسا پل ہر پل سزا دے گا
مجھے تو انتظار عشق میں ہی لطف آتا ہے
نظم
مجھے تو انتظار عشق میں ہی لطف آتا ہے
علینا عترت