EN हिंदी
مجھے کھول تازہ ہوا میں رکھ | شیح شیری
mujhe khol taza hawa mein rakh

نظم

مجھے کھول تازہ ہوا میں رکھ

فرخ یار

;

یہ جو فصل فرقت عصر ہے
اسے کاٹ بھی

یہ جو دفتر غم زیست ہے
اسے بند کر

اسے بند کر کہ وہ بت فروش نہیں رہے
جو اسیر تھے رخ دہر کے

ترے روبرو ترے چار سو
شب ہست و بود کی راہ میں ترے ہم قدم

ترے آئنوں کی شکستگی کا بھرم لیے
کوئی اور کب ہے مرے سوا

کوئی اور کب تھا مرے بغیر
مگر اے رہین دم الست

مرے واقعے کے مقدمات سے پیشتر
میری بندگی کو فروغ دے

کبھی دوپہر کے خمار میں
کسی عکس موج بلا میں رکھ

مرے خاک و خوں کو نہال کر
مجھے کھول تازہ ہوا میں رکھ