EN हिंदी
محاسبہ | شیح شیری
muhasba

نظم

محاسبہ

خورشید رضوی

;

ہوا کہیں نام کو نہیں تھی
اذان مغرب سے دن کی پسپا سپاہ کا دل دھڑک رہا تھا

تمام رنگوں کے امتیازات مٹ چکے تھے
ہر ایک شے کی سیہ قبا تھی

جگہ جگہ بام و در کے پیکر
افق کے رنگین چوکھٹے میں

مثال تصویر جم گئے تھے
شجر حجر سب کے سب گریباں میں سر جھکائے

محاسبہ کر رہے تھے دن بھر کے نیک و بد کا
طویل قامت حزیں کھجوریں

کٹی ہوئی ساعتوں کے ماتم میں
بال کھولے ہوئے کھڑی تھیں

نشیمنوں کو پلٹتے طائر
کچھ ایسے تھم تھم کے اڑ رہے تھے

کہ صفحۂ آسماں پہ گویا
سراب پرواز بن گئے تھے

ادھر مرا دل
دھڑک دھڑک کر

عجیب عبرت بھری ندامت سے سوچتا تھا
کہ آج کا دن بھی کٹ گیا ہے