یہاں
کبھی کبھی دھوپ بھی
زینہ زینہ یوں اتری ہے
جیسے اجنبی ہو
اور مجھے وہ لوگ یاد آئے ہیں
جو اپنے وطن سے بچھڑ گئے
مہاجر جلا وطن
جنہوں نے سمجھا تھا کہ اجنبی شہر میں موت
کم لوگوں کو آتی ہے
جو یہاں اس گمان میں آئے تھے
کہ عافیت دائم رہے گی
تم نے ڈھلتے سایوں کی سیاست سے گریز کیا ہے
تم دھوپ سے ڈرے ہو
تم نے آنکھ یوں بند کر لی ہے جیسے پکی اینٹ ہے
میرے تمہارے درمیان اب روزمرہ
ہمدردیوں کے لفظ بھی نہیں

نظم
مہاجر
اعجاز احمد اعجاز