EN हिंदी
مبارک وہ ساعت | شیح شیری
mubarak wo saat

نظم

مبارک وہ ساعت

شکیب جلالی

;

میں بھٹکا ہوا اک مسافر
رہ و رسم منزل سے ناآشنائی پہ نازاں

تعاقب میں اپنی ہی پرچھائیوں کے رواں تھا
میرے جسم کا بوجھ دھرتی سنبھالے ہوئے تھی

مگر اس کی رعنائیوں سے مجھے کوئی دل بستگی ہی نہیں تھی
کبھی راہ چلتے ہوئے خاک کی روح پرور کشش

میں نے محسوس کی ہی نہیں تھی
میں آنکھوں سے بینا تھا لیکن

میرے چار سو چادریں آئنوں کی طرح تھیں
کہ جن کے لیے میرا پرتو ہی تھا اک زندہ حقیقت

کسی دوسرے کو گوارہ نہ تھی اس میں شرکت
میں کانوں سے بہرا نہیں تھا

مگر جس طرح کہنہ گنبد میں چمگادڑوں کے بھٹکنے کی آواز گونجتی نہیں ہے
کھلے آسماں کے پرندوں کی چہکار اندر پہنچتی نہیں ہے

اسی طرح میرا بھی ذوق سماعت رسا تھا فقط اپنی ہی دھڑکنوں تک
بس اپنے لہو کی سبک آہٹوں تک

میں بھٹکا ہوا اک مسافر
میری راہ پر مٹ چکے تھے سفر کے اشارات سارے

فراموشیوں کی گھنی دھند میں کھو چکے تھے جہت کے نشانات سارے
رہ و رسم منزل سے میں آشنا ہی نہیں تھا

مگر میں اکیلا
کروڑوں کی اس بھیڑ میں بھی اداس اور اکیلا

تعاقب میں اپنی ہی پرچھائیوں کے رواں تھا
میں شاید ہمیشہ یوں ہی اپنی پرچھائیوں کے تعاقب میں حیران پھرتا

اگر روشنی مجھ پہ چمکی نہ ہوتی
مبارک وہ ساعت کہ جب موت اور تیرگی کے گھنے سائباں کے تلے

روشنی مجھ پہ چمکی
میرے دل پہ دھرتی نے اور اس کے ارفع مظاہر نے اپنی محبت رقم کی

مبارک وہ ساعت کہ جب برق کے کوڑے لہراتی
لوہے کی چیلوں سے اور

آتشیں تیر برساتے فولاد کے پر درندوں سے مڈبھیڑ میں
میں نے دیکھے

میرے ساتھیوں کے جگر میں ترازو ہیں جو تیر
ہوا ہوں میں خود ان کا نخچیر

جو قطرہ لہو کا گرا ان کے تن سے
بہا ہے وہ میرے بدن سے

مبارک وہ ساعت کہ جب میں نے جانا
مری دھڑکنوں میں کروڑوں دلوں کی صدا ہے

میری روح میں مشترک ''گرچہ قالب جدا ہے''