بیٹھ کر ایک بار رکشے میں
پھر نہ بیٹھے گا یار رکشے میں
آج کل ہو رہا ہے زوروں پر
حسن کا کاروبار رکشے میں
دے حسینوں کو کار سے تشبیہ
کر ہمارا شمار رکشے میں
آ رہا ہے مشاعرے کے لئے
شاعر نامدار رکشے میں
ہے جہاں دو کا بیٹھنا مشکل
یہ بٹھاتے ہیں چار رکشے میں
شاہراہوں پہ روز ہوتے ہیں
حادثے بے شمار رکشے میں
نظم
موٹر رکشا
سرفراز شاہد