EN हिंदी
مری دعا ہے | شیح شیری
meri dua hai

نظم

مری دعا ہے

جاوید اختر

;

خلا کے گہرے سمندروں میں
اگر کہیں کوئی ہے جزیرہ

جہاں کوئی سانس لے رہا ہے
جہاں کوئی دل دھڑک رہا ہے

جہاں ذہانت نے علم کا جام پی لیا ہے
جہاں کے باسی

خلا کے گہرے سمندروں میں
اتارنے کو ہیں اپنے بیڑے

تلاش کرنے کوئی جزیرہ
جہاں کوئی سانس لے رہا ہے

جہاں کوئی دل دھڑک رہا ہے
مری دعا ہے

کہ اس جزیرے میں رہنے والوں کے جسم کا رنگ
اس جزیرے کے رہنے والوں کے جسم کے جتنے رنگ ہیں

ان سے مختلف ہو
بدن کی ہیئت بھی مختلف

اور شکل و صورت بھی مختلف ہو
مری دعا ہے

اگر ہے ان کا بھی کوئی مذہب
تو اس جزیرے کے مذہبوں سے وہ مختلف ہو

مری دعا ہے
کہ اس جزیرے کی سب زبانوں سے مختلف ہو زبان ان کی

مری دعا ہے
خلا کے گہرے سمندروں سے گزر کے

اک دن
اس اجنبی نسل کے جہازی

خلائی بیڑے میں
اس جزیرے تک آئیں

ہم ان کے میزباں ہوں
ہم ان کو حیرت سے دیکھتے ہوں

وہ پاس آ کر
ہمیں اشاروں سے یہ بتائیں

کہ ان سے ہم اتنے مختلف ہیں
کہ ان کو لگتا ہے

اس جزیرے کے رہنے والے
سب ایک سے ہیں

مری دعا ہے
کہ اس جزیرے کے رہنے والے

اس اجنبی نسل کے کہے کا یقین کر لیں