نشہ جس وقت بھی ٹوٹے گا، کئی اندیشے
صبح لب بستہ کے سینے میں اتر آئیں گے
محفل شعلۂ شب تاب کے سارے لمحے
راکھ ہو جائیں گے پلکوں پہ بکھر جائیں گے
ریت در آئے گی سنسان شبستانوں میں
اور بگولے پس دیوار نظر آئیں گے
اس سے پہلے کہ یہ ہو جائے، مرے زخمی ہونٹ
میں یہ چاہوں گا کہ بے لحن و صدا ہو جائیں
میں یہ چاہوں گا کہ بجھ جائے مری شمع خیال
اس سے پہلے کہ سب احباب جدا ہو جائیں
اس لیے مجھ سے نہ پوچھو کہ صف یاراں میں
کیوں یہ دل بے ہنر و حسن و تمیز اتنا ہے
اور اے دیدہ ورو! یہ بھی نہ پوچھو کہ مجھے
ساغر زہر بھی کیوں جاں سے عزیز اتنا ہے
نظم
مرے زخمی ہونٹ
مصطفی زیدی