پروں کو مرے تم نہ ریشم کی ڈوری سے باندھو
نہ کاٹو انہیں تم
کہ مجھ کو بھی اڑنے دو اونچی اڑان
میں تتلی ہوں ایسی
کہ جس کے پروں سے
چمکتی جھمکتی ہیں
رنگوں کی موجیں
یہ موجیں مری راہ کی مشعلیں بن گئی ہیں
مٹائیں گی جو تیری میری تیرہ شبوں کی
دھندلکے مٹائیں گی صبحوں کے میری
پروں کو مرے تم نہ ریشم کی ڈوری سے باندھو
نہ کاٹو انہیں تم
کہ ان ہی سنہری پروں کے سہارے
مجھے پار کرنا ہے اس رائیگاں دشت کو
اور خیالوں کے ایسے جزیرے میں جانا ہے
جس تک کسی کی رسائی بھی ممکن نہیں ہے
مرے واسطے جو ہمیشہ سے نادیدنی ہے
مگر میں نے بخشے ہیں اس کو خیالوں کے رنگین پیکر
اترنا ہے اس دیس میں
جس کے پھولوں کی خوشبو
مری منتظر ہے
رنگوں کے پیکر مرے منتظر ہیں
مجھے ڈھونڈتے ہیں
وہاں عندلیبوں کے نغمے
اسی دیس میں
کتنی نوخیز کلیوں کے رنگیں بدن میں مچلتی ہوئی
کتنی منہ زور خوشبوئیں
بند قبا توڑنے کو ہیں بے چین
سب استعارے مرے واسطے ہیں نئی زندگی کے
بلاتے ہیں مجھ کو
پروں کو مرے تم نہ ریشم کی ڈوری سے باندھو
نہ کاٹو انہیں تم

نظم
مرے پر نہ باندھو
غزالہ خاکوانی