مرا جذبۂ شوق کام آ رہا ہے
کہ بازار میں دیکھوں آم آ رہا ہے
غریب و امیر اس کے شیدائی یکساں
پسندیدۂ خاص و عام آ رہا ہے
کسی مقتدی کو خریدوں میں کیوں کر
کہ جب خود پھلوں کا امام آ رہا ہے
سب ہاتھوں کو پھیلائیں آنکھیں بچھائیں
پھلوں میں وہ عالی مقام آ رہا ہے
وہ چوسا سرولی، وہ سندھڑی وہ فضلی
وہ آموں کا اک ازدحام آ رہا ہے
ہے لنگڑا پہ لنگڑاتے لنگڑاتے دیکھو
وہ محبوب من خوش خرام آ رہا ہے
مجھے ہے خوشی جو ہیں دیوانے اس کے
اثرؔ ان میں میرا بھی نام آ رہا ہے

نظم
مرا جذبۂ شوق کام آ رہا ہے
شاہین اقبال اثر