EN हिंदी
میر ہو مرزا ہو میرا جی ہو | شیح شیری
mir ho mirza ho mera ji ho

نظم

میر ہو مرزا ہو میرا جی ہو

ن م راشد

;

میر ہو مرزا ہو میرا جی ہو
نارسا ہاتھ کی نمناکی ہے

ایک ہی چیخ ہے فرقت کے بیابانوں میں
ایک ہی طول الم ناکی ہے

ایک ہی روح جو بے حال ہے زندانوں میں
ایک ہی قید تمنا کی ہے

عہد رفتہ کے بہت خواب تمنا میں ہیں
اور کچھ واہمے آئندہ کے

پھر بھی اندیشہ وہ آئینہ ہے جس میں گویا
میر ہو مرزا ہو میرا جی ہو

کچھ نہیں دیکھتے ہیں
محور عشق کی خود مست حقیقت کے سوا

اپنے ہی بیم و رجا اپنی ہی صورت کے سوا
اپنے رنگ اپنے بدن اپنے ہی قامت کے سوا

اپنی تنہائی جانکاہ کی دہشت کے سوا
دل خراشی و جگر چاکی و خوں افشانی

ہوں تو ناکام پہ ہوتے ہیں مجھے کام بہت
مدعا محو تماشائے شکست دل ہے

آئنہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے
رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہ تھا

چاند کے آنے پہ سائے آئے
سائے ہلتے ہوئے، گھلتے ہوئے کچھ بھوت سے بن جاتے ہیں

میر ہو مرزا ہو میرا جی ہو
اپنی ہی ذات کی غربال میں چھن جاتے ہیں

دل خراشیدہ ہو خوں دادہ رہے
آئنہ خانے کے ریزوں پہ ہم استادہ رہے

چاند کے آنے پہ سائے بہت آئے بھی
ہم بہت سایوں سے گھبرائے بھی

میر ہو مرزا ہو میرا جی ہو
آج جاں اک نئے ہنگامے میں در آئی ہے

ماہ بے سایہ کی دارائی ہے
یاد وہ عشرت خوں ناب کسے

فرصت خواب کسے