EN हिंदी
میرؔ | شیح شیری
mir

نظم

میرؔ

عزیز لکھنوی

;

شاہد بزم سخن ناظورۂ معنی طراز
اے خدائے ریختہ پیغمبر سوز و گداز

یوسف ملک معانی پیر کنعان سخن
ہے تری ہر بیت اہل درد کو بیت الحزن

اے شہید جلوۂ معنی فقیر بے نیاز
اس طرح کس نے کہی ہے داستان سوز و ساز

ہے ادب اردو کا نازاں جس پہ وہ ہے تیری ذات
سر زمین شعر پر اے چشمۂ آب حیات

تفتہ دل آشفتہ سر آتش نوا بے خویشتن
آہ تیری سینہ سوز اور نالہ تیرا دل شکن

ختم تجھ پر ہو گیا لطف بیان عاشقی
مرحبا اے واقف راز نہان عاشقی

سر زمین شعر کعبہ اور تو اس کا خلیل
شاخ طوبائے سخن پر ہمنوائے جبرئیل

جوش استغنا ترا تیرے لیے وجہ نشاط
شان خودداری تری آئینہ دار احتیاط

بزم سے گزرا کمال فقر دکھلاتا ہوا
تاج شاہی پائے استغنا سے ٹھکراتا ہوا

تھا دماغ و دل میں صہبائے قناعت کا سرور
تھی جواب سطوت شاہی تری طبع غیور

موجۂ بحر قناعت تیری ابرو کی شکن
تخت شاہی پر حصیر فقر تیرا خندہ زن

تھا یہ جوہر تیری فطری شاعری کے رتبہ داں
عزت فن تھی تری نازک مزاجی میں نہاں

ملتفت کرتا تجھے کیا اغنیا کا کر و فر
تھا تری رگ رگ میں درویشوں کی صحبت کا اثر

دل ترا زخموں سے بزم عاشقی میں چور ہے
جس سخن کو دیکھیے رستا ہوا ناسور ہے

بزم گاہ حسن میں اک پرتو فیض جمال
صید گاہ عشق میں ہے ایک صید خستہ حال

دیکھنا ہو گر تجھے دیکھے ترے افکار میں
ہے تری تصویر تیرے خونچکاں اشعار میں

سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخچیر کا
جس کے ہر ٹکڑے میں ہو پیوست پیکاں تیر کا

آسمان شعر پر چمکے ہیں سیارے بہت
اپنی اپنی روشنی دکھلا گئے تارے بہت

عہد گل ہے اور وہی رنگینیٔ گل زار ہے
خاک ہند اب تک اگر دیکھو تجلی زار ہے

اور بھی ہیں معرکے میں شہسوار یکہ تاز
اور بھی ہیں میکدے میں ساقیان دل نواز

ہیں تو پیمانے وہی لیکن وہ مے ملتی نہیں
نغمہ سنجوں میں کسی سے تیری لے ملتی نہیں

صاحبان ذوق کے سینوں میں تھی جس کی کھٹک
تیرتے ہیں دل میں وہ سر تیز نشتر آج تک

کاروان رفتہ کو تھا تیری یکتائی پہ ناز
عصر موجودہ نے بھی مانا ہے تیرا امتیاز

ہو گئے ہیں آج تجھ کو ایک سو بائیس سال
تو نہیں زندہ ہے دنیا میں مگر تیرا کمال

حق ہے ہم پر یاد کر کے تجھ کو رونا چاہئے
ماتم اپنی نا شناسی کا بھی ہونا چاہئے

ڈھونڈتے ہیں قبر کا بھی اب نشاں ملتا نہیں
اے زمیں تجھ میں ہمارا آسماں ملتا نہیں