میز پر رکھے ہیں ہاتھ
ہاتھوں کو میز پر سے اٹھاتی ہوں
پھر بھی پڑے رہتے ہیں
میز پر
اور ہنستے ہیں
میز پر رکھے
اپنے ہی دو ہاتھوں کو
ہاتھوں سے اٹھانا مشکل لگتا ہے
میں ہاتھوں کو دانتوں سے
اٹھاتی ہوں
پر ہاتھ نہیں اٹھتے
میز پر رہ جاتے ہیں
دانتوں کے نشانوں سے بھرے ہوئے
ساکت اور گھورتے ہوئے
میں بھی ہاتھوں کو گھورتی ہوں
میز کا رنگ آنکھوں میں
بھر جاتا ہے
میں آنکھیں بند کر لیتی ہوں
سو جاتی ہوں
میز پر رکھے ہوئے ہاتھوں پر
سر رکھ کر
نظم
میز پر رکھے ہاتھ
عذرا عباس