EN हिंदी
میٹرو شہر کی ایک عام لڑکی | شیح شیری
metro shahr ki ek aam laDki

نظم

میٹرو شہر کی ایک عام لڑکی

عزیر رحمان

;

کان پک جاتے ہیں دنیا کی شکایت سن کر
کس نے جانا ہے تمہیں کس کا یقیں کر لوں میں

وو جو کہتے ہیں کے تم عام سی لڑکی ہو جسے
فکر اپنی ہے کسی اور سے مطلب ہی نہیں

اپنی روزانہ کی روٹین میں میں جکڑی جکڑی
وہ ہی میٹرو کی سواری وہ ہی آپا دھاپی

تل نہ دھرنے کی جگہ پھر بھی پہنچنا ہے جسے
اپنی ہر چیز سنبھالے ہوئے رہنا ہے جسے

کون آیا ہے پس و پیش سمجھنے کے لئے
کون آئے گا یہ تصویر بدلنے کے لئے

کتنا آسان ہے الزاموں سے چھلنی کرنا
کتنا آسان ہے دو باتوں سے زخمی کرنا

ایسے حالات سے لڑ کر جسے کچھ بننا ہے
پورے کرنے ہیں کئی خواب تمنا ہے کچھ

اس کے پیروں کی یہ زنجیر ہٹانی ہوگی
نسل حوا کی یہ تصویر مٹانی ہوگی

تم سے روشن ہے ہر اک گھر مگر ایسا کیوں ہے
تم تڑپتی ہو تو یہ جگ مرا ہنستا کیوں ہے

بیری دنیا نے تمہیں ٹھیک سے پرکھا ہی نہیں
میری آنکھوں سے کسی نے تمہیں دیکھا ہی نہیں