EN हिंदी
میری تلاش مت کرو | شیح شیری
meri talash mat karo

نظم

میری تلاش مت کرو

نیاز حیدر

;

مری تلاش مت کرو نہ مجھ کو پا سکو گے تم
جہاں پہنچ گیا ہوں میں وہاں نہ آ سکو گے تم

تمہارے جسم و جاں دل و نظر میں ہوں
تمہارے ساتھ ساتھ زندگی کے

ہر سفر میں ہوں
تم اپنے آپ سے ابھی نہیں ہو روشناس

تاکہ دیکھتے مجھے خود اپنے آپ میں کبھی
مگر تم اپنے آپ کو نہ دیکھ پاؤ گے ابھی

ابھی نہ اپنے آپ سے نظر ملا سکو گے تم
مری تلاش مت کرو

نہ مجھ کو پا سکو گے تم
جہاں پہنچ گیا ہوں میں

وہاں نہ آ سکو گے تم
روشنی کے سحر کار دائرے

بنا رہا ہوں ذرۂ حقیر سے
جو ساکنان عرش کو محیط میں لیے ہوئے

زمیں کی سمت ہیں رواں
روشنی میں گم ہوں میں

روشنی مری نمود
نظارۂ تجلیٔ حیات ہوں

تاب کس نظر میں ہے
تجلئ حیات کی نہ تاب لا سکو گے تم

مری تلاش مت کرو نہ مجھ کو پا سکو گے تم
بعید از قیاس

ماورائے فکر و آگہی
تمام کائنات کی حدوں سے پار زندگی

دانش و خرد کی بے شمار منزلیں
بے شمار منزلیں ملیں

فضائے بے زماں و بے مکاں کی جستجو میں گم
تعین اور مقام کا اسیر

میں کبھی نہ تھا کبھی نہیں
اگر تعینات سے پرے نہ جا سکو گے تم

مری تلاش مت کرو نہ مجھ کو پا سکو گے تم
مری تلاش مت کرو نہ مجھ کو پا سکو گے تم

شبیہ رنگ روپ
ان قیود سے بری ہوں میں

خیال ذات اور تصور وجود سے بلند ہوں
بتاؤ ان بلندیوں تک آج آ سکو گے تم

خود اپنے آپ سے کبھی نظر ملا سکو گے تم
مری تلاش مت کرو مجھے نہ پا سکو گے تم