EN हिंदी
میری شاعری | شیح شیری
meri shairi

نظم

میری شاعری

اختر پیامی

;

زندگی کی سبھی راہوں سے گزرتا ہوں ندیم
جائزہ لیتا ہوں ہر موڑ پہ شاعر کا دماغ

ہر بدلتے ہوئے منظر پہ نظر رکھتا ہوں
اور تاریک سی راتوں میں جلاتا ہوں چراغ

زندگی کی سبھی راہوں سے گزرتا ہوں ندیم
جھلملاتے ہوئے آنچل میں سکوں ڈھونڈ چکا

اک تبسم کے لئے ایک اشارے کے لئے
اپنے جذبات میں انداز جنوں ڈھونڈ چکا

زندگی کی سبھی راہوں سے گزرتا ہوں ندیم
پردۂ ساز میں اک گیت چھپایا تھا کبھی

اپنے احساس کی پرواز بڑھانے کے لئے
یاد ہے مدھ بھری آنکھوں کو رلایا تھا کبھی

زندگی کی سبھی راہوں سے گزرتا ہوں ندیم
یہ جھپکتی ہوئی پلکیں ہیں یہ لب یہ رخسار

یہ تو زلفیں نہیں ساون کی گھٹائیں ہوں گی
ہاں یہی تو ہیں خیالات کے رنگیں شہکار

زندگی کی سبھی راہوں سے گزرتا ہوں ندیم
میں نے اک بار ہی چھیڑا تھا محبت کا رباب

سانس جلنے لگی تھی جسم لرز اٹھا تھا
میں نے پینے کے لئے صرف انڈیلی تھی شراب

زندگی کی سبھی راہوں سے گزرتا ہوں ندیم
حسن کو رہ گزر عام پہ چلتے دیکھا

ایک ہی سمت عنایات کے دھارے نہ رہے
میں نے پانی کئی سوتوں سے ابلتے دیکھا

زندگی کی سبھی راہوں سے گزرتا ہوں ندیم
میں نے گھٹتے ہوئے کمرے میں دھواں دیکھا ہے

تنگ گلیوں میں بناوٹ کی ہنسی بکتی ہے
دور اک طاق پہ مٹی کا دیا جلتا ہے