باہر ایک آواز ہے
تمام آوازوں سے مختلف
فضا کی مردہ شریانوں میں
ایک تازہ سچائی بھر دینے والی آواز
بے حس مکانوں منڈلاتی ہوئی
میرے دروازے پر دستک دیتی ہوئی
کبھی مدھم کبھی تیز
ایک بے چین دستک
مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہے
مجھ تک پہنچانا چاہتی ہے
تھوڑے ہی فاصلے پر کھڑے ایک موسم کی بات
شاید میری ہی کوئی بات
لیکن میں دروازے تک کیسے جاؤں
اسے کیسے کھولوں
باہر کھڑے موسم کو اندر کیسے لاؤں
میں تو عرصہ ہوا
اپنے ہاتھ پاؤں
بطور ضمانت رکھ چکا ہوں
کس جرم میں
کس کے پاس رکھ چکا ہوں
بالکل بھول چکا ہوں
نظم
میری ہی کوئی بات
جاوید شاہین