''ہمچو سبزہ بارہا روئیدہ ایم''
(رومیؔ)
پھر اک دن ایسا آئے گا
آنکھوں کے دئیے بجھ جائیں گے
ہاتھوں کے کنول کمھلائیں گے
اور برگ زباں سے نطق و صدا
کی ہر تتلی اڑ جائے گی
اک کالے سمندر کی تہ میں
کلیوں کی طرح سے کھلتی ہوئی
پھولوں کی طرح سے ہنستی ہوئی
ساری شکلیں کھو جائیں گی
خوں کی گردش دل کی دھڑکن
سب راگنیاں سو جائیں گی
اور نیلی فضا کی مخمل پر
ہنستی ہوئی ہیرے کی یہ کنی
یہ میری جنت میری زمیں
اس کی صبحیں اس کی شامیں
بے جانے ہوئے بے سمجھے ہوئے
اک مشت غبار انساں پر
شبنم کی طرح رو جائیں گی
ہر چیز بھلا دی جائے گی
یادوں کے حسیں بت خانے سے
ہر چیز اٹھا دی جائے گی
پھر کوئی نہیں یہ پوچھے گا
سردارؔ کہاں ہے محفل میں
لیکن میں یہاں پھر آؤں گا
بچوں کے دہن سے بولوں گا
چڑیوں کی زباں سے گاؤں گا
جب بیج ہنسیں گے دھرتی میں
اور کونپلیں اپنی انگلی سے
مٹی کی تہوں کو چھیڑیں گی
میں پتی پتی کلی کلی
اپنی آنکھیں پھر کھولوں گا
سر سبز ہتھیلی پر لے کر
شبنم کے قطرے تولوں گا
میں رنگ حنا آہنگ غزل
انداز سخن بن جاؤں گا
رخسار عروس نو کی طرح
ہر آنچل سے چھن جاؤں گا
جاڑوں کی ہوائیں دامن میں
جب فصل خزاں کو لائیں گی
رہ رو کے جواں قدموں کے تلے
سوکھے ہوئے پتوں سے میرے
ہنسنے کی صدائیں آئیں گی
دھرتی کی سنہری سب ندیاں
آکاش کی نیلی سب جھیلیں
ہستی سے مری بھر جائیں گی
اور سارا زمانہ دیکھے گا
ہر قصہ مرا افسانہ ہے
ہر عاشق ہے سردارؔ یہاں
ہر معشوقہ سلطانہؔ ہے
میں ایک گریزاں لمحہ ہوں
ایام کے افسوں خانے میں
میں ایک تڑپتا قطرہ ہوں
مصروف سفر جو رہتا ہے
ماضی کی صراحی کے دل سے
مستقبل کے پیمانے میں
میں سوتا ہوں اور جاگتا ہوں
اور جاگ کے پھر سو جاتا ہوں
صدیوں کا پرانا کھیل ہوں میں
میں مر کے امر ہو جاتا ہوں
نظم
میرا سفر
علی سردار جعفری