قدم مٹی پہ رکھتی ہو
کہ عرش اوپر ٹھہرتے ہیں
کہ جب تم پاؤں دھرتی ہو
تو دھرتی کے جگر کی دھڑکنیں بھی آزماتی ہو
بہاروں میں بکھرتیں تو تمہیں بس ڈھونڈتے پھرتے
مگر تم رنگ و بو کو اپنا پس منظر بناتی ہو
خوش دلی کے قہقہے کی نقرئی گھنٹی کے نغموں کی کھنک کے ساتھ
سارے منظروں پر پھیل جاتی ہو
وہ ساعت جس میں تم دم لو
زمانے کی ہر اک تقدیم سے باہر
کوئی پھیلا ہوا لمحہ ٹھہرتی ہے
وہ سب گوشے جہاں تنہائی تم کو کھینچ لے جائے
وہیں تو ریشمی نکہت کی تنویریں بکھرتی ہیں
یہ تصویریں
کہ جن میں تم نے دیکھا
لوگ دن کے ہفت خواں کو کاٹتے گزرے
یہ سب خوں تھوکتے
زخم اپنے اپنے چاٹتے انساں
فقط اس شام کی آہٹ پہ جاتے ہیں
جہاں تم ہو

نظم
محور
احسان اکبر