اک معلق خلا میں کہیں ناگہاں
مہرباں فرش پر پاؤں میرا پڑا
میں نے دیکھا کھلا ہے مرے سامنے
زر نگار و منقش بہت ہی بڑا
ایک در خواب کا
مہرباں فرش کے
مرمریں پتھروں سے ہویدا ہوا
عکس مہتاب کا
میں نے ہاتھ اپنے آگے بڑھائے
اور اس کو چھوا
گھنٹیاں میرے کانوں میں بجنے لگیں
جاوداں اور غنائی رفاقت کے مابین تھا
میرا صحرائے جاں
اک معلق خلا میں کہیں ناگہاں
میں نے دیکھا
مرے شب نما جسم پر
اک ستارہ سی بارش نے لب رکھ دیا
نرم براق ترشے ہوئے طاق پر
جتنا زاد سفر میرے ہم راہ تھا
میں نے سب رکھ دیا
اب میں آزاد تھا
اور طلسمیں پڑاؤ کا ہر اسم بھی یاد تھا
میں نے دیکھا
مرے چار جانب جھکا تھا
پیالہ نما آسماں
میرا محرم مری سانس کا راز داں
اک معلق خلا میں کہیں ناگہاں
مہرباں فرش پر پاؤں میرا پڑا
میں نے دیکھا کھلا ہے مرے سامنے
زر نگار و منقش بہت ہی بڑا
ایک در خواب کا
نظم
مہرباں فرش پر
رفیق سندیلوی