جب میگھا آتی ہے
سب کو پتہ چل جاتا ہے
کبھی اس کی ہنسی سے
کبھی اس کی خوشبو سے
کبھی کانوں کے جھمکے
کبھی آنکھ کا کاجل
سب کو بتا دیتے ہیں
میگھا کہیں قریب ہی ہے
اس کی ہنسی کی کھنک آج کل
بڑی گہری ہے
آنچل بھی لہرائے ہیں مگر
کوئی جانتا نہیں اس ساری رونق سے
پرے ایک دل ہے
جو دھڑکنا بند کرنے کو ہے
سانسیں اکثر گھٹنے لگتی ہیں
مگر میگھا جاگتی ہے
پھر سے خود کو سنوارتی ہے!
نظم
میگھا
عروج جعفری