EN हिंदी
مزدوروں کا گیت | شیح شیری
mazduron ka git

نظم

مزدوروں کا گیت

اسرار الحق مجاز

;

محنت سے یہ مانا چور ہیں ہم
آرام سے کوسوں دور ہیں ہم

پر لڑنے پر مجبور ہیں ہم
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم

گو آفت و غم کے مارے ہیں
ہم خاک نہیں ہیں تارے ہیں

اس جگ کے راج دلارے ہیں
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم

بننے کی تمنا رکھتے ہیں
مٹنے کا کلیجہ رکھتے ہیں

سرکش ہیں سر اونچا رکھتے ہیں
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم

ہر چند کہ ہیں ادبار میں ہم
کہتے ہیں کھلے بازار میں ہم

ہیں سب سے بڑے سنسار میں ہم
مزدور میں ہم مزدور ہیں ہم

جس سمت بڑھا دیتے ہیں قدم
جھک جاتے ہیں شاہوں کے پرچم

ساونت ہیں ہم بلونت ہیں ہم
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم

گو جان پہ لاکھوں بار بنی
کر گزرے مگر جو جی میں ٹھنی

ہم دل کے کھرے باتوں کے دھنی
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم

ہم کیا ہیں کبھی دکھلا دیں گے
ہم نظم کہن کو ڈھا دیں گے

ہم ارض و سما کو ہلا دیں گے
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم

ہم جسم میں طاقت رکھتے ہیں
سینوں میں حرارت رکھتے ہیں

ہم عزم بغاوت رکھتے ہیں
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم

جس روز بغاوت کر دیں گے
دنیا میں قیامت کر دیں گے

خوابوں کو حقیقت کر دیں گے
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم

ہم قبضہ کریں گے دفتر پر
ہم وار کریں گے قیصر پر

ہم ٹوٹ پڑیں گے لشکر پر
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم