ہمارے ساتھ جو کچھ راہزن بھی ہیں ماخوذ
وہ اہل شہر کے کہنے سے چھوٹ جائیں گے
گواہ کفر ہمیں میں ہے کون پہچانے
ہمیں تو ایک سے لگتے ہیں آج سب چہرے
ہمارا جرم تو روپوش بھی نہیں اب کے
کسی گواہ کی حاجت نہیں سزا کے لئے
دیار غم کی صدائے نہفتہ پہچانو
ہوائے جبر چراغ نفس کے در پہ ہے
یہ اور بات ہے خود کو چھپا رہا ہے مگر
ولیٔ شہر سنبھالے ہے تاج کانٹوں کا
ہجوم بہر تماشہ کھڑا ہے گلیوں میں
یہ عصر خوں کی کفالت کا مدعی ہے ابھی
صلیب ڈھونڈ رہی ہے کسی مسیح کو پھر
یہی گھڑی ہے ہر الزام اپنے سر لے لو
نظم
مواخذہ
عزیز قیسی