افق زیست سے اک اور ستارہ ٹوٹا
اک کرن اور ہوئی رات کی ظلمت میں اسیر
پھر کسی نغمۂ بیتاب کی لے ساز سے آزاد ہوئی
ایک تابندہ حقیقت کہ جو تھی راز ہوئی
سرد پیمان وفا سرد ہوئی آتش شوق
سرد جذبات کا طوفان خموش
سرد تابندہ نگاہوں کے شرار
سرد بر کیفیت غم کی سلگتی ہوئی آگ
جام پر شور سے گر جانے دو ناکام تمناؤں کی مے
فرش مے خانۂ الفت پہ الٹ دو ساغر
سرنگوں بند دریچوں میں امیدوں کے دیئے گل کر دو
داستاں سوز و محبت کی ادھوری ہے
مگر
المیہ ختم ہوا
دل شکن آخری منظر پہ گرا دو پردے

نظم
موت
زاہدہ زیدی