وہ تبسم کی سڑک پر
تھامے جس کی انگلیاں
محو سفر تھا کل تلک
روشن محبت کی اسی پہچان کو
درگور کر دینے سے پہلے
غم سمیٹے
نرم کاندھے پر
کسی لب ریز بادل کی طرح
رونے لگا تھا پھوٹ کر
بے چارگی آشفتگی درماندگی
سے واسطہ تھا ہر طرف اس کو
مگر یہ سلسلہ
کب تک کہاں تک
تازہ دم رہتا
معاً احساس جاگا ذہن میں اس کے
کہ اس سے آسماں کہنے لگا ہے
''جب مزہ چکھنا سبھی کو
موت کا ہے
ایک دن لازم
تو کیسا غم
نہیں کچھ بھی ترے بس میں
کمر کس لے
وفا کرنے کو سب رسمیں!''
نظم
موت
جعفر ساہنی