EN हिंदी
موت | شیح شیری
maut

نظم

موت

فاروق نازکی

;

عجیب لمحہ ہے
موت کا بھی

نہ خوف ساتھی
نہ آس ہمدم

عجیب شے ہے یہ آدمی بھی
جو موت کے ڈر سے کانپتا ہے

جو آس کی ڈور تھامتا ہے
اسے خبر ہے کہ موت کیا ہے

مگر وہ پھر بھی
فصیل بیم و رجا کا قیدی

خود اپنی کرنی سے بھاگتا ہے
اسے خبر ہے کہ موت جینے کا آسرا ہے

اسے خبر ہے
عجیب لمحہ ہے موت کا بھی

نہ آس ہمدم
نہ خوف ساتھی