اے حسیں ساحل مگر سوتا ہے تو
تیرے حسن بے خبر پر میری بیداری نثار
میرے قطروں کی جبیں
مضطرب سجدوں کی دنیائے نیاز
آستاں ناز پر ذوق عبادت کا ہجوم
دیکھ لرزاں سانس
تیری دید کو آتی ہوں میں
گاتی ہوئی روتی ہوئی
اور تو
اضطرار فطرت سیماب کا رنگ ادا
تیری اس شان تغافل پر فدا
سوتا ہے تو
درد الفت کی اسیر
تیری ریتوں کو اگر میں بوسہ دوں
ہے یہی اک آرزو
ایک جنبش اک نگاہ
اک سرسراہٹ ایک آہ
اے میرے دل کی دیوتا
میرے آئینے سے مسحور جمال
تمتما اٹھتے ہیں تارے
غم سے ہو جاتے ہیں دم بھر کے لیے
منعکس ہے میرے دامن میں فروغ ماہتاب
خوشۂ پرویں کہ ہے شاداب خون آفتاب
پانیوں میں لہلہاتا ہے عجب انداز سے
حسن ایمن کی بہار
یاد ہے چشم کلیم
میرے دل کے دیوتا
سونے کو ہوں
ایک جنبش اک نگاہ
اک سرسراہٹ ایک آہ
اے میرے دل کے دیوتا
نظم
موج دریا
تصدق حسین خالد