چاندنی رات کے ہنستے ہوئے خوابوں کی طرح
نقرئی جسم کا شاداب گلستاں لے کر
شوخ آنکھوں کے چھلکتے ہوئے پیمانوں میں
مجھ تہی دست کے آلام کا درماں لے کر
آج تو جن کو بجھانے کے لئے آئی ہے
انہیں شعلوں سے مرے دل نے جلا پائی ہے
انہیں شعلوں کی تب و تاب ہے جس نے اب تک
میرے ادراک کو بے سوز نہیں رکھا ہے
جبر کی چھاؤں میں پروان چڑھا ہوں پھر بھی
میں نے انسان کی عظمت پہ یقیں رکھا ہے
ایسے شعلوں کی تپش تیری پناہوں میں کہاں
اور یہ سوز یقیں تیری نگاہوں میں کہاں
انہیں شعلوں کی تمازت کا سہارا لے کر
بربریت کے ہر ایوان سے ٹکرایا ہوں
ہر کڑے وقت میں سنگین چٹانوں کی طرح
تند حالات کے طوفان سے ٹکرایا ہوں
تو کہاں اور مری جرأت بے باک کہاں
تجھ کو اس کاہش جاں سوز کا ادراک کہاں
اب یہی شعلے مری فکر و نظر میں ڈھل کر
حسن احساس کا شہکار نظر آتے ہیں
اس تمدن کی گھنی رات کے سناٹے میں
صبح کی طرح ضیا بار نظر آتے ہیں
اور تو کہتی ہے اس صبح کا سودا کر لوں
دل میں ان شعلوں کے بدلے ترے جلوے بھر لوں
جب بھڑک اٹھیں گے ہر سرد و سیہ سینے میں
یہی شعلے دل آفاق کو لو بخشیں گے
تیرہ و تار دماغوں کو بجھے چہروں کو
عزم و امید کی گاتی ہوئی ضو بخشیں گے
اور یہ ضو ہی بنے گی ترے جلووں کا کفن
آگ ہو جائے گا اس سے ترا شاداب چمن
میرے آلام کا درماں تری آنکھوں میں نہیں
اپنے احساس کو سینے میں تپاں رکھوں گا
آج تک میں نے جسے شعلہ فشاں رکھا ہے
اب بھی وہ آگ یونہی شعلہ فشاں رکھوں گا
مجھ کو احساس ہے لیکن تجھے احساس نہیں
تیرے دامن کی ہوا میرے لئے راس نہیں
نظم
مصلحت
نریش کمار شاد