وہی دریا
جوان رنگین نازک مچھلیوں کا
ہے بچھونا اوڑھنا
یہ مچھلیاں بھولی
اسی میں زندہ رہنا چاہتی ہیں
اور بہاؤ کے مخالف تیرنے کی
آرزو بھی دل میں رکھتی ہیں
مگر دریا
انہیں خاشاک کی صورت بہا کر
ایک دن پر شور کف آلود پر ہیبت سمندر کے حوالے کرنے والا ہے
یہی ہوتا رہا ہے
تو کیا دریا یہی کرتا رہے گا
نظم
مشرقی لڑکیوں کے نام ایک نظم
حسن اکبر کمال